قیام حمل سے لے کر عمر کے دو سال تک کا عرصہ بچے کی نشوونما کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس عرصہ کے دوران کیمیائی مادوں، کیڑے مار دواؤں اور آلودگی پھیلانے والی دیگر اشیاء میں شامل زہریلے اجزا ء شکم مادر میں نیز پیدائش کے بعد کافی نقصان دہ اثرات بچے کی صحت پر مرتب کرتے ہیں۔ ان اثرات کے باعث بچہ پیدائشی نقائص کے علاوہ دمہ جیسی بیماریوں یہاں تک کہ سرطان کے مرض میں بھی مبتلا ہو سکتاہے۔ایک تحقیقاتی ادارہ نے والدین کی رہنمائی کے لیے ایسی اشیاء کی فہرست شائع کی جو بچوں کے لیے زہریلے اثرات کے باعث خطرناک ہیں اور جن سے بچوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ وہ اشیا ءیہ ہیں:
اسپرین: بہت سی عام استعمال کی دواؤں میں اسپرین شامل ہوتی ہے جنہیں اگر حمل کی آخری سہ ماہی میں خواتین کھائیں تو وضع حمل کے وقت بچے کے جسم سے خون جاری ہو جاتا ہے اور اگر خواتین حمل کے پہلے نصف حصے میں یہ ادویت استعمال کریں تو بچے کی کسر ذہانت (آئی کیو) پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، لہٰذا حمل کے دوران معالج کی ہدایت کے بغیر کوئی روزمرہ کی عام دوا بھی استعمال نہ کیجئے۔
د ودھ کی بوتلیں: دودھ پلانے والی پلاسٹک کی بوتلوں میں کیمیائی اجزا بھی ہوتے ہیں جو بوتل کے اندر دودھ یا پانی وغیرہ میں شامل ہو سکتے ہیں۔ پلاسٹک یاربر کے نپل کو پانچ منٹ تک پانی میں ابالیں تاکہ ان میں کیمیائی اشیا کا اثر کم سے کم ہو جائے۔ پلاسٹک کی بوتل استعمال کریں تو موٹے پلاسٹک کی کیجئے اور اس میں دودھ یا دوسری رقیق اشیاء ایک گھنٹے سے زیادہ نہ رکھیے۔
قالین :قالینوں میں زہریلی کیمیائی اشیاء خاصی مقدار میں ہوتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان زہریلے مادوں کی تعداد 64 تک بتائی گئی ہے۔ ان میں سے بعض بچے کے اعصاب کو مستقل طور پر نقصان پہنچا سکتی ہیں اور بچے کی سیکھنے سمجھنے کی صلاحیت کو متاثر کر سکتی ہیں۔ نیز بچے کو متلی، درد سر اور تکان کا مریض بنا سکتی ہیں۔ قالین کی صفائی سے پہلے اگر اس پر کھانے کا سوڈا خوب چھڑ کا جائے اور اسے قالین میں جذب ہونے دیا جائے تو بعض مضر صحت کیمیائی اشیا کا توڑ ہو سکتا ہے۔
ماں کا ذہنی دباؤ:اگر حاملہ خاتون فکر مند ہوں یا ذہنی دباؤ کا شکار ہوں تو رحم کی جانب خون کی گردش ساٹھ فی صد تک کم ہو جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں پیٹ میں پرورش پانے والے بچے کو آکسیجن اور مقویات کی فراہمی میں کمی آجاتی ہے۔ ماں کے جسم میں بعض ہارمون کی سطح میں تبدیلی خصوصاً ایڈرینالن کے باعث بظاہر بچے کی دماغی نشوو نما پر دیرپا اثرات مرتب ہوتے ہیں لہٰذا حاملہ خواتین کو چاہیے کہ تفکرات سے دور رہنے کی ہر ممکن کوشش کریں، لمبے لمبے سانس لیں اور دیگر سکون بخش طریقے آزمائیں۔
لباس: نائلون میں بعض ایسی کیمیائی اشیاء ہوتی ہیں جو بچے کی نشوونما کو متاثر کر سکتی ہیں۔ پولسٹر میں بھی یہی عیب ہے۔ سوت اور اون سے بنے ہوئے لباس میں کیمیائی کیڑے مار دواؤں کا کچھ اثر باقی رہ جاتا ہے۔پولسٹر سے تو بچوں کو بہرطور بچانا چاہیے۔ سوتی کپڑے بھی وہ استعمال کیے جائیں جو بغیر مصنوعی کھاد اور ادویہ کے اگائی گئی کپاس سے بنے ہوں ورنہ کپڑوں کو کھانے کے سوڈے میں دھویا جائے۔
گیس کے ہیٹر:گھر کو گیس کے ہیٹر سے گرم
کیا جائے تو ایسے کیمیکل خارج ہوتے ہیں جو خطرہ سے خالی نہیں ہوتے۔ کاربن مونو آکسائڈ بھی جو ہر طرح کے ایندھن کے جلنے سے خارج ہوتی ہے نشوونما کے لیے نقصان دہ سمجھی جاتی ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ جہاں ہیٹر چلے وہاں تازہ ہوا کے آنے جانے کا انتظام مناسب ہو۔
خضاب: بالوں کے غیر معیاری کیمیائی رنگ اور خضاب سے چھاتی اور بیضہ دانی کے سرطان کا خطرہ ہوتاہے لہٰذا جو عورتیں حاملہ ہوں‘ حاملہ ہونے کی خواہش مند بچے کو اپنا دودھ پلارہی ہوں وہ مختلف خضاب اور دیگر کیمیائی اشیاء کے استعمال سے گریز کریں۔ ہاں وہ اشیاء استعمال کی جاسکتی ہیں جو بے ضرر سمجھی جاتی ہیں مثلاً مہندی وغیرہ۔
کیڑے مار اسپرے:گھر میں مچھر، مکھی اور کیڑے مکوڑے مارنے والی دوائیں چھڑکنے سے بچوں کی صحت کو نقصان پہنچ سکتا ہے لہٰذا ایسے اسپرے استعمال کیجئے جو جڑی بوٹیوں سے تیار کیے گئے ہوں۔
بچوں کو چومنا: اگر کسی کو تبخال (ہونٹوں کی پھنسیاں) یا کوئی اور تعدیہ ہو تو وہ بچوں کو چومنے سے گریزکرے‘اس صورت میںبچے کو چوم کر ہم بہت سے جراثیم اپنے منہ سے اس کے منہ میں منتقل کر دیتے ہیں ۔
ضروری احتیاط :مصنوعی گدےپلاسٹک اور مصنوعی پارچہ جات سے تیار شدہ سے کیمیائی مادے خارج ہو تے ہیں ۔لہٰذا بہتر ہوگا کہ قدرتی اشیاء اور ریشوں سے تیار شدہ پارچہ جات استعمال کیے جائیں یا پھر پلاسٹک اور مصنوعی اشیاء سے تیار شدہ گدوں کو خوب لپیٹ لیا جائے۔ بچوں کو ایسے کلوٹ نہ باندھیں جن پر تصویریں بنی ہوں ‘ سو فیصد سوتی کلوٹ استعمال کرنا بہتر ہوگا اور انہیں بھی بچے کو باندھنے سے پہلے خوب دھولیا جائے۔
پلاسٹک کا فرنیچر اور کھلونے: پلاسٹک جتنا باریک ہو گا اتنی ہی اس سے بو اور کیمیائی مادے کا اخراج ہوگا۔ ان سے اکثر ایسی بو اور بھپکے نکلتے ہیں جو سانس کے ساتھ جسم میں پہنچ کر صحت کو متاثر کرتے ہیں‘اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ جو عورتیں حاملہ ہوں یا بچے کو دودھ پلا رہی ہوں انہیں دمہ کی دوا کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے کیوںکہ اسے بعض پیدائشی نقائص کا سبب بتایا جاتا ہے۔کیفین: چائے‘کافی اور دیگر مشروبات میں شامل کیفین اعصابی نظام کی انگیزش کا باعث ہے۔ یہ دل کی دھڑکن، فشار خون اور استحالہ کی رفتار کو بڑھاتی ہے۔ شکم مادر میں بچے کو آکسیجن اور مقویات کی فراہمی کم ہو جاتی ہے لہذا حاملہ خواتین کو چاہیے کہ وہ دن بھر میں دو پیالی سے زیادہ چائے یا کولا مشروب نہ پئیں۔
قیام حمل سے لے کر عمر کے دو سال تک کا عرصہ بچے کی نشوونما کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس عرصہ کے دوران کیمیائی مادوں، کیڑے مار دواؤں اور آلودگی پھیلانے والی دیگر اشیاء میں شامل زہریلے اجزا ء شکم مادر میں نیز پیدائش کے بعد کافی نقصان دہ اثرات بچے کی صحت پر مرتب کرتے ہیں۔ ان اثرات کے باعث بچہ پیدائشی نقائص کے علاوہ دمہ جیسی بیماریوں یہاں تک کہ سرطان کے مرض میں بھی مبتلا ہو سکتاہے۔ایک تحقیقاتی ادارہ نے والدین کی رہنمائی کے لیے ایسی اشیاء کی فہرست شائع کی جو بچوں کے لیے زہریلے اثرات کے باعث خطرناک ہیں اور جن سے بچوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ وہ اشیا ءیہ ہیں:اسپرین: بہت سی عام استعمال کی دواؤں میں اسپرین شامل ہوتی ہے جنہیں اگر حمل کی آخری سہ ماہی میں خواتین کھائیں تو وضع حمل کے وقت بچے کے جسم سے خون جاری ہو جاتا ہے اور اگر خواتین حمل کے پہلے نصف حصے میں یہ ادویت استعمال کریں تو بچے کی کسر ذہانت (آئی کیو) پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، لہٰذا حمل کے دوران معالج کی ہدایت کے بغیر کوئی روزمرہ کی عام دوا بھی استعمال نہ کیجئے۔د ودھ کی بوتلیں: دودھ پلانے والی پلاسٹک کی بوتلوں میں کیمیائی اجزا بھی ہوتے ہیں جو بوتل کے اندر دودھ یا پانی وغیرہ میں شامل ہو سکتے ہیں۔ پلاسٹک یاربر کے نپل کو پانچ منٹ تک پانی میں ابالیں تاکہ ان میں کیمیائی اشیا کا اثر کم سے کم ہو جائے۔ پلاسٹک کی بوتل استعمال کریں تو موٹے پلاسٹک کی کیجئے اور اس میں دودھ یا دوسری رقیق اشیاء ایک گھنٹے سے زیادہ نہ رکھیے۔قالین :قالینوں میں زہریلی کیمیائی اشیاء خاصی مقدار میں ہوتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان زہریلے مادوں کی تعداد 64 تک بتائی گئی ہے۔ ان میں سے بعض بچے کے اعصاب کو مستقل طور پر نقصان پہنچا سکتی ہیں اور بچے کی سیکھنے سمجھنے کی صلاحیت کو متاثر کر سکتی ہیں۔ نیز بچے کو متلی، درد سر اور تکان کا مریض بنا سکتی ہیں۔ قالین کی صفائی سے پہلے اگر اس پر کھانے کا سوڈا خوب چھڑ کا جائے اور اسے قالین میں جذب ہونے دیا جائے تو بعض مضر صحت کیمیائی اشیا کا توڑ ہو سکتا ہے۔ماں کا ذہنی دباؤ:اگر حاملہ خاتون فکر مند ہوں یا ذہنی دباؤ کا شکار ہوں تو رحم کی جانب خون کی گردش ساٹھ فی صد تک کم ہو جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں پیٹ میں پرورش پانے والے بچے کو آکسیجن اور مقویات کی فراہمی میں کمی آجاتی ہے۔ ماں کے جسم میں بعض ہارمون کی سطح میں تبدیلی خصوصاً ایڈرینالن کے باعث بظاہر بچے کی دماغی نشوو نما پر دیرپا اثرات مرتب ہوتے ہیں لہٰذا حاملہ خواتین کو چاہیے کہ تفکرات سے دور رہنے کی ہر ممکن کوشش کریں، لمبے لمبے سانس لیں اور دیگر سکون بخش طریقے آزمائیں۔ لباس: نائلون میں بعض ایسی کیمیائی اشیاء ہوتی ہیں جو بچے کی نشوونما کو متاثر کر سکتی ہیں۔ پولسٹر میں بھی یہی عیب ہے۔ سوت اور اون سے بنے ہوئے لباس میں کیمیائی کیڑے مار دواؤں کا کچھ اثر باقی رہ جاتا ہے۔پولسٹر سے تو بچوں کو بہرطور بچانا چاہیے۔ سوتی کپڑے بھی وہ استعمال کیے جائیں جو بغیر مصنوعی کھاد اور ادویہ کے اگائی گئی کپاس سے بنے ہوں ورنہ کپڑوں کو کھانے کے سوڈے میں دھویا جائے۔گیس کے ہیٹر:گھر کو گیس کے ہیٹر سے گرم(باقی صفحہ 59)(بقیہ:ماں بننے والی خواتین ضرور پڑھیں!کہیںدیر نہ ہو جائے) کیا جائے تو ایسے کیمیکل خارج ہوتے ہیں جو خطرہ سے خالی نہیں ہوتے۔ کاربن مونو آکسائڈ بھی جو ہر طرح کے ایندھن کے جلنے سے خارج ہوتی ہے نشوونما کے لیے نقصان دہ سمجھی جاتی ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ جہاں ہیٹر چلے وہاں تازہ ہوا کے آنے جانے کا انتظام مناسب ہو۔خضاب: بالوں کے غیر معیاری کیمیائی رنگ اور خضاب سے چھاتی اور بیضہ دانی کے سرطان کا خطرہ ہوتاہے لہٰذا جو عورتیں حاملہ ہوں‘ حاملہ ہونے کی خواہش مند بچے کو اپنا دودھ پلارہی ہوں وہ مختلف خضاب اور دیگر کیمیائی اشیاء کے استعمال سے گریز کریں۔ ہاں وہ اشیاء استعمال کی جاسکتی ہیں جو بے ضرر سمجھی جاتی ہیں مثلاً مہندی وغیرہ۔کیڑے مار اسپرے:گھر میں مچھر، مکھی اور کیڑے مکوڑے مارنے والی دوائیں چھڑکنے سے بچوں کی صحت کو نقصان پہنچ سکتا ہے لہٰذا ایسے اسپرے استعمال کیجئے جو جڑی بوٹیوں سے تیار کیے گئے ہوں۔بچوں کو چومنا: اگر کسی کو تبخال (ہونٹوں کی پھنسیاں) یا کوئی اور تعدیہ ہو تو وہ بچوں کو چومنے سے گریزکرے‘اس صورت میںبچے کو چوم کر ہم بہت سے جراثیم اپنے منہ سے اس کے منہ میں منتقل کر دیتے ہیں ۔ضروری احتیاط :مصنوعی گدےپلاسٹک اور مصنوعی پارچہ جات سے تیار شدہ سے کیمیائی مادے خارج ہو تے ہیں ۔لہٰذا بہتر ہوگا کہ قدرتی اشیاء اور ریشوں سے تیار شدہ پارچہ جات استعمال کیے جائیں یا پھر پلاسٹک اور مصنوعی اشیاء سے تیار شدہ گدوں کو خوب لپیٹ لیا جائے۔ بچوں کو ایسے کلوٹ نہ باندھیں جن پر تصویریں بنی ہوں ‘ سو فیصد سوتی کلوٹ استعمال کرنا بہتر ہوگا اور انہیں بھی بچے کو باندھنے سے پہلے خوب دھولیا جائے۔پلاسٹک کا فرنیچر اور کھلونے: پلاسٹک جتنا باریک ہو گا اتنی ہی اس سے بو اور کیمیائی مادے کا اخراج ہوگا۔ ان سے اکثر ایسی بو اور بھپکے نکلتے ہیں جو سانس کے ساتھ جسم میں پہنچ کر صحت کو متاثر کرتے ہیں‘اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ جو عورتیں حاملہ ہوں یا بچے کو دودھ پلا رہی ہوں انہیں دمہ کی دوا کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے کیوںکہ اسے بعض پیدائشی نقائص کا سبب بتایا جاتا ہے۔کیفین: چائے‘کافی اور دیگر مشروبات میں شامل کیفین اعصابی نظام کی انگیزش کا باعث ہے۔ یہ دل کی دھڑکن، فشار خون اور استحالہ کی رفتار کو بڑھاتی ہے۔ شکم مادر میں بچے کو آکسیجن اور مقویات کی فراہمی کم ہو جاتی ہے لہذا حاملہ خواتین کو چاہیے کہ وہ دن بھر میں دو پیالی سے زیادہ چائے یا کولا مشروب نہ پئیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں